وائرل اسٹوریز

علی ظفر کے گانے 'یار دی اکھ ’ میں ماڈل کا نازیبا لباس، گلوکار پر تنقیدی وار

علی ظفر کا ردعمل بھی سامنے آگیا

Share: Next Story >>>

عالمی شہرت یافتہ پاکستانی گلوکار ظفر کے نئے گانے ’یار دی اکھ’ میں ماڈل انیسہ شیخ کے نازیبا لباس پر سوشل میڈیا صارفین نے گلوکار کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔

21 جون کو ریلیز ہونے والی علی ظفر کی نئی میوزک ویڈیو ’یار دی اکھ’ کو جہاں اب تک 1.8 ملین ویوز مل چکے ہیں وہیں سوشل میڈیا صارفین ماڈل کے بولڈ لباس پر علی ظفر کو تنقید کا نشانہ بناتے بھی نظر آرہے ہیں۔

فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر علی ظفر نے پوسٹ جاری کی جس میں انہوں نے اپنے نئے گانے سے متعلق مداحوں کو آگاہ کرتے ہوئے سب کی توجہ حاصل کرلی۔

بالو بتیاں کے بعد گلوکار نے گانا ’یار دی اکھ’ کی مختصر ویڈیو کلپ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ گانا ریلیز کیا جاچکا ہے۔’

علی ظفر کے آفیشل یوٹیوب چینل پر 4 منٹ 19 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں محبت کی لازوال کہانی کو پیش کیاگیا ہے، سمندر کی خاموشی میں ریکارڈ کی گئی یہ ویڈیو ان تمام لوگوں کی محبت کی نشہ آور خوبصورتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہےجو محبت کے نشہ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

دو براعظموں پر مشتمل مذکورہ میوزک ویڈیو میں لاس اینجلس کی مشہور ماڈل انیسہ شیخ کے ساتھ شاندار منظر کشی کی گئی جنہوں نے اپنے بے مثال اداکاری سے تعریفوں کے ٹوکرے سمیٹ لیے۔

گلوکار کے اس پوسٹ کے منظر عام پر آتے ہی کمنٹ سیکشن میں علی ظفر اور صارف کی لفظی جنگ چھڑ گئی۔

تبصرہ کرتے ایک صارف نے گلوکار کو ٹیگ کرتے ہوئے ماڈل کو بولڈ لباس پہننے کی اجازت دے کر جنسی علامت کے طور پر اعتراض کرنے پر سوال اٹھایا دیا۔

صارف نےلکھا کہ،’میں علی سے محبت کرتی ہوں، لیکن ایمانداری سے یہ احمقانہ بات ہے کہ لڑکی نے سردی میں بولڈ لباس پہنا ہوا ہے جب کہ گلوکار خودکوٹ میں آرام سے کھڑا ہے۔ جمالیات صرف لڑکی کے ساتھ کیوں اہمیت رکھتی ہے؟

صارف کے اس سوال پر علی ظفر بھی خاموش نہ رہ سکے اور لکھا کہ،’ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ لیکن یہ دو مختلف براعظموں کے دو مختلف ساحل ہیں، جو وقت کے مختلف لمحات میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ میں سڈنی میں تھا، جبکہ ماڈل لاس اینجلس میں تھی’۔

اس ویڈیو کا مقصد فاصلے پر تعلق کی خوبصورتی کو ظاہر کرنا ہے جہاں ہم میں سے ہر ایک نے وہی پہنا جو ہم نے محسوس کیا۔

میں آپ کے تبصرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ آئیے ایک ایسی دنیا کو فروغ دیں جہاں ہم انفرادیت کا جشن منائیں اور دوسروں، خاص طور پر خواتین، کے اظہار خیال میں ان کے انتخاب کے بارے میں فیصلہ کرنے سے گریز کریں۔’